Sunday 4 January 2015

نہ مسکرایا گیا،،،،

== غزل == ابراہیم اشک،
اس قدر دل اداس پایا گیا.
چاہ کر بھی نہ مسکرایا گیا.
کوئی پربت غموں کا تھا اندر،
قطرہ قطرہ جسے بہایا گیا.
ایسے اجڑی ہے کائنات مری ،
مدتوں سے کوئی نہ آیا گیا.
درد اپنا چھپائے پھرتے ہیں،
جو کسی سے نہیں چھپایا گیا.
کانپ اٹھتی ہے زندگی ساری،
جب نیا زخم کوئی کھایا گیا.
کوئی آیا نہیں وہاں ملنے،
جس جگہ پر مجھے بلایا گیا.
میں کھلونا ہوں کوئی قدرت کا،
بھر کے چابی مجھے نچایا گیا.
آئینہ شرمسار تھا خود پر،
آئینہ جب مجھے دکھایا گیا.
کتنا ایندھن تھا جسم کے اندر،
عمر بھر جو مجھے جلایا گیا. 

No comments:

Post a Comment