Monday 5 January 2015

ISHQ KE BANDE HAMESHA AATISH MAIN RAHE

==غزل== ابراہیم اشک.
زندگی کے ہر قدم پر آزمائش میں رہے.
جانے کتنے خواب اپنی ایک خواہش میں رہے.

آتی جاتی سانس میں ہے شعلہ احساس غم،
عشق کے بندے ہمیشہ جیسے آتش میں رہے
.
اس قدر بھیگے کسی کی یاد میں ہم دیر تک،
دشت کا کوئی مسافر جیسے بارش میں رہے.

دیکھتے ہی دیکھتے جب ہو گئے مشھور ہم،
جانے کتنے دشمنوں کی روز سازش میں رہے.

انکے حصّے میں نہیں ہے عشق کی عظمت کوئی،
بیخودی سے دور جو اپنی نمائش میں رہے.

ہم نے اپنے دم پہ حاصل کی ہیں ساری منزلیں،
اور ہیں وہ  لوگ جو اپنی سفارش میں رہے.

مختلف تھے اس جہاں میں تیرے دیوانوں کے خواب،
عمر بھر جو اپنی دھن میں اور کوشش میں رہے.

کس قدر اونچی اٹھی رشتوں میں دیوار انا،
اک ذراسی بات پر برسوں کی رنجش میں رہے.

ہم تصوّر کی فضا میں ماییل پرواز ہیں،
ایک لمحے کے لئے بھی ہم نہ بندش میں رہے.

No comments:

Post a Comment